میرا تو رنجشیں ساری مٹانے کا ارادہ تھا

میرا تو رنجشیں ساری مٹانے کا ارادہ تھا
گلے اس شخص کو پِھر سے لگانے کا ارادہ تھا
چلو اچھا ہوا اس نے مجھے ساحل سے ہی لوٹا دیا
ورنہ میرا تو ساری کشتیاں جلانے کا ارادہ تھا
میرا تو رنجشیں ساری مٹانے کا ارادہ تھا
گلے اس شخص کو پِھر سے لگانے کا ارادہ تھا
چلو اچھا ہوا اس نے مجھے ساحل سے ہی لوٹا دیا
ورنہ میرا تو ساری کشتیاں جلانے کا ارادہ تھا
سب کو رسوا باری باری کیا کرو
ہر موسم میں فتوے جاری کیا کرو
راتوں کا نیندوں سے رشتہ ٹوٹ چکا
اپنے گھر کی پہرے داری کیا کرو
پتھر تھا، مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
ایک شخص اندھیروں میں اُجالوں کی طرح تھا
خوابوں کی طرح تھا، نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ علمِ ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تو کون ہے اس نے کہا آوارگی
گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا
جا تجھے آج سے ہم نے اپنے خدا کے حوالے کیا
ایک مدت ہوئی ہم نے دنیا کی ہر ایک ضد چھوڑ دی
ایک مدت ہوئی ہم نے دل کو وفا کے حوالے کیا
مجھے غرور رہتا ہے تیری آشنائی کا
مگر ساتھ غم بھی ہے تیری جدائی کا
بھیڑ میں اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے
تیرے بن یہ حال ہے میری تنہائی کا
بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا
خدارا شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں
یہ لگتی ہے مرے سینے پہ بن کر تیر مولانا
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی