آج چاند رات ہے پر میں کل عید مناؤں کیسے

آج چاند رات ہے پر میں کل عید مناؤں کیسے
میرا چاند اب تک خفا ہے مجھ سے ، میں اسے مناؤں کیسے
آج چاند رات ہے پر میں کل عید مناؤں کیسے
میرا چاند اب تک خفا ہے مجھ سے ، میں اسے مناؤں کیسے
اے خدا ان سے ملا دے عید پر
اب میرا تو غم مٹا دے عید پر
حسرتوں كے اب تو میلے ہیں لگے
چوڑیاں ہی وہ دلا دے عید پر
کچھ تارے تیری پلکوں پہ بھی روشن ہوں گے
کچھ رلائے گا مجھے بھی تیرا غم عید كے دن
مجھ کو تیری نہ تجھ کو میری خبر جائے گی
عید اب كے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
میں نے چاہا تجھے عید پہ کچھ پیش کروں
جس میں احساس کے سب رنگ ہوں روشن روشن
جس میں آنكھوں كے تراشے ہوئے موتی لاکھوں
جس میں شامل ہو میرے قلب کی دھڑکن دھڑکن
عید کا دن گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
عشق اِس طرح كے گستاخ تقاضے نہ کرے
حُسن مزدور بھی ، مجبور بھی ، مغرور بھی ہے