تم عید مناؤ سج دھج کے

تم عید مناؤ سج دھج کے
میں جیسا ہوں ویسا ہی ہوں
جس حال میں ہوں میں جیسا ہوں
نہ پوچھ صنم اب کیسا ہوں

تم دل کا لگانا کیا جانو
تم اشک بہانا کیا جانو
تم نازک پھول ہو گلشن کے
تم آگ میں جلنا کیا جانو
یہ عمر ہے تیری ہنسنے کی
نہیں عشق میں آہیں بھرنے کی
میری قسمت میں ہیں درد صنم
سب سہہ لوں گا تقدیر کے غم

مجبور ملے جو الفت میں
سر آنکھوں پر ہیں سارے ستم
جب رب کو ہے منظور یہی
تو بسم اللہ ایسے ہی سہی

تجھ سے ملنے کو کبھی ہم جو مچل جاتے ہیں

تجھ سے ملنے کو کبھی ہم جو مچل جاتے ہیں
تو خیالوں میں بہت دور نکل جاتے ہیں

گر وفاؤں میں صداقت بھی ہو شدت بھی ہو
پھر تو احساس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

اس کی آنکھوں کے نشے میں ہم جب سے ڈوبے
لڑکھڑاتے ہیں قدم اور سنبھل جاتے ہیں

اس سے جدائی کا جب بھی خیال آتا ہے
اشک رخسار پہ آنکھوں سے پھسل جاتے ہیں

پیار میں ایک ہی موسم ہے بہاروں کا
لوگ موسم کی طرح کیسے بدل جاتے ہیں