یہ عہد عجب عہد کمو بیش ہے جاناں

یہ عہد عجب عہد کمو بیش ہے جاناں
خود تیری گواہی ترے ہم راز نہ دیں گے
تو بھی ہمیں بن دیکھے گزر جائے گا اک دن
کچھ سوچ كے ہم بھی تجھے آواز نہ دیں گے
یہ عہد عجب عہد کمو بیش ہے جاناں
خود تیری گواہی ترے ہم راز نہ دیں گے
تو بھی ہمیں بن دیکھے گزر جائے گا اک دن
کچھ سوچ كے ہم بھی تجھے آواز نہ دیں گے
تم عید مناؤ سج دھج کے
میں جیسا ہوں ویسا ہی ہوں
جس حال میں ہوں میں جیسا ہوں
نہ پوچھ صنم اب کیسا ہوں
تم دل کا لگانا کیا جانو
تم اشک بہانا کیا جانو
تم نازک پھول ہو گلشن کے
تم آگ میں جلنا کیا جانو
یہ عمر ہے تیری ہنسنے کی
نہیں عشق میں آہیں بھرنے کی
میری قسمت میں ہیں درد صنم
سب سہہ لوں گا تقدیر کے غم
مجبور ملے جو الفت میں
سر آنکھوں پر ہیں سارے ستم
جب رب کو ہے منظور یہی
تو بسم اللہ ایسے ہی سہی
میں کسی کو کیا الزام دوں اپنی موت کا حاصل
یہاں تو ستانے والے بھی اپنے تھے دفنانے والے بھی اپنے
میری قربتیں بھی سراب ہیں یہ بھلا ہُوا جو ملی نہیں
تیری دوریاں بھی عذاب ہیں میرے دشتِ جاں سے ٹلیں نہیں
وہ زندگی ہو كے دنیا فراز کیا کیجئے
کہ جس سے عشق کرو بے وفا نکلتی ہے
مجھ سے ہر بار وہ نظریں چرا لیتا ہے فراز
میں نے کاغذ پہ بھی بنا كے دیکھی ہیں آنکھیں اس کی
اگر وہ زندگی میں فقط ایک بار میرا ہو جاتا
تو میں زمانے کی کتابوں سے لفظ بیوفائی ہی مٹا دیتا
تجھ سے ملنے کو کبھی ہم جو مچل جاتے ہیں
تو خیالوں میں بہت دور نکل جاتے ہیں
گر وفاؤں میں صداقت بھی ہو شدت بھی ہو
پھر تو احساس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
اس کی آنکھوں کے نشے میں ہم جب سے ڈوبے
لڑکھڑاتے ہیں قدم اور سنبھل جاتے ہیں
اس سے جدائی کا جب بھی خیال آتا ہے
اشک رخسار پہ آنکھوں سے پھسل جاتے ہیں
پیار میں ایک ہی موسم ہے بہاروں کا
لوگ موسم کی طرح کیسے بدل جاتے ہیں