پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک

پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک
پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے
کل رات برستی رہی ساون کی گھٹا بھی
اور ہَم بھی تیری یاد میں دِل کھول كے روئے
کون پریشان ہوتا ہے تیرے غم سے فراز
وہ اپنی ہی کسی بات پہ رویا ہو گا
ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ
میں نے شبنم کو بھی شعلوں پہ مچلتے دیکھا
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کاجل
عشق کو بھی عشق ہو تو پِھر میں دیکھوں عشق کو
کیسے تڑپے کیسے روئے عشق اپنے عشق میں