اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم

اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نہیں کدھر جا رہے ہیں ہم
اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نہیں کدھر جا رہے ہیں ہم
اس کی آنكھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام
اک تم تھے کہ معیار کے پیمانے سے ماپتے رہے
اور ایک میں تھا کہ اپنا آپ گرا کر پیش کرتا رہا