رات آ کر گزر بھی جاتی ہے

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا
ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے
آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے
محبت نہ سہی دشمنی نباہ کے دیکھتے ہیں
آپ کا یہ رنگ بھی آزما کے دیکھتے ہیں
وہ جن کی آنکھوں میں دیکھنے کو سب ہی کچھ ہو
ان کے چہرے کو دیکھنے کی طلب کیوں کروں میں
ساقی کوئی ایسا جام پلا دے
جو غموں کو ٹٹول کر، درد کو نچوڑ دے