جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا

جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے
ساری بستی قدموں میں ہے، یہ بھی اک فنکاری ہے
ورنہ بدن کو چھوڑ کے اپنا جو کچھ ہے سرکاری ہے
کس لیے محسن کسی بے مہر کو اپنا کہوں
دل کے شیشے کو کسی پتّھر سے کیوں ٹکراؤں میں
دل کی منزل اُس طرف ہے گھر کا رستہ اِس طرف
ایک چہرہ اُس طرف ہے ایک چہرہ اس طرف
اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو
وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے
اپنے گھر کوواپس جاؤ رو روکر سمجھاتا ہے
جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں