افلاس کی بستی میں جا کر تو دیکھو

افلاس کی بستی میں جا کر تو دیکھو
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا
افلاس کی بستی میں جا کر تو دیکھو
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا
ہر دسمبر اسی وحشت میں گزارا کہ کہیں
پھر سے آنکھوں میں تیرے خواب نہ آنے لگ جائیں
آج وہ پڑھ لیا گیا جس کو پڑھا نہ جا سکا
آج کسی کتاب میں کچھ بھی لکھا ہوا نہیں
یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم
اب اپنے آپ کو بھی چھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم
میری تعریف کرے یا مجھے بدنام کرے
جس نے جو بات بھی کرنی ہے سر عام کرے
میں فقیروں سے بھی کرتا ہوں تجارت اکثر
جو ایک پیسے میں لاکھوں کی دعا دیتے ہیں
نہ جانے کب کوئی آشوب تم کو آ گھیرے
عجیب وقت ہے دست دعا دراز رکھو
اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے