اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے

اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انہیں سے کام چلاؤ بڑی اداس ہے رات
اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انہیں سے کام چلاؤ بڑی اداس ہے رات
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے
نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے
دیکھا کتاب عشق کے اوراق کھول کر
اول بھی تیرا نام تھا، آخر بھی تیرا نام