آگ تھے ابتدائے عشق میں ہَم

آگ تھے ابتدائے عشق میں ہَم
ہو گئے خاک انتہا یہ ہے
ہر نسل وراثت میں خزینے نہیں دیتی
اولاد بھی کیا چیز ہے جینے نہیں دیتی
کھلتا تھا جس میں کبھی تمنا کا شگوفہ
کھڑکی وہ بڑی دیر سے ، ویران پڑی ہے
بہت سے غم دسمبر میں دسمبر کےنہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا، مگر رویا دسمبر میں
وہ ہمیں گمان میں رکھ کے کیا خوب کھیلے
جیت کے نشے میں رکھ کے کیا خوب جیتے
ان لمحوں کی یادیں سنبھال کے رکھنا
ہم یاد تو آئیں گے لیکن لوٹ کے نہیں