ایک زمانے بعد فراز یہ شعر کہے میں نے

ایک زمانے بعد فراز یہ شعر کہے میں نے
اک مدت سے ملے نہیں ہیں یار میرا اور میں
ایک زمانے بعد فراز یہ شعر کہے میں نے
اک مدت سے ملے نہیں ہیں یار میرا اور میں
تم میرے لیے اتنے پریشان سے کیوں ہو
میں ڈوب بھی جاتا تو کہیں اور ابھرتا
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
کِس کو خبر تھی، کِس کو یقیں تھا ایسے بھی دن آئیں گے
جینا بھی مُشکل ہوگا، اور مرنے بھی نہ پائیں گے
تماشبینی کے کوٹھے میں روح دفنا کے آیا ہوں
میں بڑی مشکل سے اپنی لاش اٹھاکے لایا ہوں
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
محبت کے گھروں کے کچے پن کو یہ کہاں سمجھیں
ان آنکھوں کو تو بس آتا ہے برساتیں بڑی کرنا