جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا

جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا
میں، آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا
جہالتوں کے اندھیرے مٹا کے لوٹ آیا
میں، آج ساری کتابیں جلا کے لوٹ آیا
آنکھیں نوچ لی گئیں، زباں کاٹ دی گئی
پر اب بھی میرے ہاتھوں میں رقص قلم جاری ہے
مجھ کو یہ ہوش ہی نہ تھا تو مرے بازوؤں میں ہے
یعنی تجھے ابھی تلک میں نے رہا نہیں کیا
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں