شمار اُسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص

شمار اُسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرِتا ہے چھین کر آنکھیں
شمار اُسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرِتا ہے چھین کر آنکھیں
اس کی ملاقات مجھے ملاقات نہیں لگتی
وہ تو آنکھ کھلتے ہی چلا جاتا ہے
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا
میں آنے والے زمانوں سے ڈر رہا ہوں فراز
کہ میں نے دیکھی ہیں آنکھیں اداس لوگوں کی
عامر کسی کو زلفیں ، کسی کو پسند آنکھیں
ہے جو زیرِ لب تل ، ہے وہ جان کسی کی