گر جسموں کی بھوک مٹانے کا نام ہی محبت ہے
گر جسموں کی بھوک مٹانے کا نام ہی محبت ہے
تو پھر اس طرز محبت سے میں بے زار سہی
گر جسموں کی بھوک مٹانے کا نام ہی محبت ہے
تو پھر اس طرز محبت سے میں بے زار سہی
بلھے شاہ زہر دیکھ کے پیتا تے کی پیتا
عشق سوچ كے کیتا تے کی کیتا
دِل دے كے دِل لین دی آس رکھی
وی بلھیا پیار اہو جیا کیتا تے کی کیتا
مانا کے رات بہت ہو چکی، سونے کا وقت ہے
پر کیا کروں، قلم سے اترنے کو خیالات باقی ہیں
غریب ماں اپنے بچوں کو پیار سے یوں مناتی ہے
پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آتی ہے
غرور کاہے کا، ہے، انا کس بات کی
حضور آخری ہر راستہ قبرستان کو جاتا ہے
جی ڈھونڈتا ہے پِھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے تصور جاناں کیے ہوئے
میرا دیس ایک ایسے بستی ہے
جہاں مذہب کے نام پہ سر کٹتے ہیں
جہاں مذہب کی خاطر
نام کے مسلم لڑ مرتے ہیں
جہاں ملا، مفتی، قاری، سب ہی
دین کے ٹھیکیدار بنے ہیں
یہاں دین کے ٹھیکیدار بہیت ہیں
اسی لیے
یہاں فرقے بے شمار بہت ہیں