دِل میں سکون کا نام و نشاں ختم ہوا
دِل میں سکون کا نام و نشاں ختم ہوا
یہ انتظار ختم ہوا تیرا ساتھ ختم ہوا
درد کا یہ سلسلہ ختم ہوا
میں ختم ہوا تیرا نام ختم ہوا
دِل میں سکون کا نام و نشاں ختم ہوا
یہ انتظار ختم ہوا تیرا ساتھ ختم ہوا
درد کا یہ سلسلہ ختم ہوا
میں ختم ہوا تیرا نام ختم ہوا
ہم تو چاھت میں بھی غالبؔ کے مقلّد ہیں فرازؔ
جس پہ مرتے ہیں اُسے مار کے رکھ دیتے ہیں
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
سوچتا ہوں وه اب کسے خفا کرتی ہوگی
میری طرح مجبوریوں سے وفا کرتی ہوگی
جب تک شامل ہوں اس کی آرزوء میں
مجھے یقین ہے وہ زندگی کی دعا کرتی ہوگی
آئینہ طنز کرتا ہوگا آنکھیں بھر آتی ہوگیں مزید پڑھیں […]