سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے

سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دِل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دِل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے
مجھے محبت ہے اپنے ہاتھوں كے سبھی انگلیوں سے باسط
نہ جانے کس انگلی کو پکڑ کر میری ماں نے مجھے چلنا سکھایا
جدا ہو کر بھی دونوں جی رہے ہیں ایک مدت سے
کبھی دونوں ہی کہتے تھے كے ایسا ہو نہیں سکتا
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
اِس بارش كے موسم میں عجیب سے کشش ہے
نہ چاہتے ہوئے بھی کوئی شدت سے یاد آتا ہے
غیروں میں ہیں جو شاد ، انہیں عید مبارک
جن کو نہیں ہم یاد ، انہیں عید مبارک
معصوم سے ارمانوں کی معصوم سی دُنیا
جو کر گئے برباد انہیں عید مبارک
نکلتا ہے کے آدھی رات روپوش رہتا ہے
ہمیں معلوم ہو کیسے کہہ اس کا مدعا کیا ہے
مناسب ہے یہی اب تو ہر اک عید سے پہلے
کمیٹی چاند سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ عہد عجب عہد کمو بیش ہے جاناں
خود تیری گواہی ترے ہم راز نہ دیں گے
تو بھی ہمیں بن دیکھے گزر جائے گا اک دن
کچھ سوچ كے ہم بھی تجھے آواز نہ دیں گے