بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے

بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے
وہیں سے وہ پکار اٹھے گا جو ذرہ جہاں ہوگا
بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے
وہیں سے وہ پکار اٹھے گا جو ذرہ جہاں ہوگا
جو مجھے بھلا دیں گے میں انہیں بھلا دوں گا
سب غرور ان کا میں خاک میں ملا دوں گا
دیکھتا ہو سب شکلیں ، سن رہا ہو سب باتیں
سب حساب ان کا میں اک دن چکا دوں گا
روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں میں
اک ہوا ضیاؤں کی چار سو چلا دوں گا
ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے
گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر
اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں
محفلیں خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا
ریت پر بیٹھ کر بہتے ہوئے اشکوں سے
تم بھی لکھو گے میرا نام مگر میرے بعد