یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
کہتے کہتے کچھ بدل دیتا ہے کیوں باتوں کا رخ
کیوں خود اپنے آپ کے بھی ساتھ وہ سچا نہیں
آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
راز جو کچھ ہو اشاروں میں بتا بھی دینا
ہاتھ جب ان سے ملانا تو دبا بھی دینا
میں اکژہاتھ ہونٹوں سے لگا کر چوم لیتا ہوں
کبھی جب یاد آتا ہے تمھارا تھامنا اِن کو
ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ دل نہیں ہوتا