ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا
ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا
زندگی سنگِ درِ یار سے آگے نہ بڑھی
عاشقی مطلعِ دیدار سے آگے نہ بڑھی
تیرگی کیسوئے خمدار سے آگے نہ بڑھی
روشنی تابشِ رُخسار سے آگے نہ بڑھی
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
دسمبر میں کہا تھا ناں کہ واپس لوٹ آؤ گے
ابھی تک تم نہیں لوٹے دسمبر لوٹ آیا ہے