ان کے گھر کی طرف منه کر كے
ان کے گھر کی طرف منه کر كے
ہَم اکثر حالِ دِل سناتے ہیں
جھکتے ہیں دانش جہاں زمانے كے بادشاہ
کبھی تو دیکھ لوں میں وہ دربار مصطفی
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں انہیں کے کوچے میں ہم آج گنہ گاروں کی طرح
بے فیض رفاقت میں ثمر کِس کے لئے تھا
جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کِس کے لئے تھا
پردیس میں سونا تھا تو چھت کِس لئے ڈالی
باہر ہی نکلنا تھا تو گھر کِس کے لئے تھا
اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں