تری جیسا نہیں کوئی جو چھانی یہ جہاں میں نے

تری جیسا نہیں کوئی جو چھانی یہ جہاں میں نے
کہ تو ہے حور جنت کی جو لپٹی ہے حجابوں میں
جو کھلتا ہے ترا چہرہ تری مسکان سے تو پھر
کوئی ثانی نہیں ہوتاترے جیسا گلابوں میں
کہیں یہ چاند شرما کر گلابوں سے چھوٹ نہ جائے
اسی خاطر چھپائے رکھ تو چہرے کو نقابوں میں
نشہ ہے تیری آنکھوں میں اسی میں چین ہے میرا
رکھا ہے میکدوں میں کیا اور رکھا کیا شرابوں میں
اگر تو دور ہے مجھ سےتو کوئی غم نہیں مجھ کو
کہ ہوتی ہے ملن تم سے خیالوں اور خوابوں میں
مرا سکھ تو اسی میں ہے کہ تو دکھ دے مجھے ہر پل
کو کچھ تو دے رہا ہے تو اگر چہ ہے عذابوں میں
محبت تو ہمیں تھی ایک دوجے سے مگر افسوس
کہ ہم نے زندگی اپنے گنوائی یوں سرابوں میں
بھلا یہ کس طرح ممکن ہےتیرا ہمسفر ہونا
مجھے اڑنا نہیں آتا، ترا مسکن عقابوں میں
تمہیں پانا مری منزل ہے میری کامیابی ہے
رکھا ہے کیا پڑھائی میں، زمانے کی کتابوں میں
خدا جب پوچھتا ہے کے تجھے کیا دوں کہو انجم
مرے ہونٹوں پہ تیرا نام ہوتا ہے جوابوں میں

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
تمام تبصرے دیکھیں