کبھی وقت ملے تو آجاؤ
ہم جھیل کنارے مل بیٹھیں
تم اپنے سکھ کی بات کرو
ہم اپنے دکھ کی بات کریں
ہم ان لمحوں کی بات کریں
جو ساتھ تمہارے بیت گئے
اور عہدِ خزاں کی نذر ہوئے
ہم شہرِِ خواب کے باسی ہیں
تم چاند ستاروں کی ملکہ
ان سبز رتوں کے دامن میں
ہم پیار کی خوشبو مہکائیں
ان بکھرے سبز نظاروں کو
ہم آنکھوں میں تصویر کریں
پتھر پر گرتے پانی کو
ہم خوابوں سے تعبیر کریں
اس وقت کے ڈوبتے سورج کو
ہم چاہت کی جاگیر کریں
اور اپنے پیار کے جادو سے
ان لمحوں کو زنجیر کریں
کبھی وقت ملے تو آ جاؤ
ہم جھیل کنارے مل بیٹھیں
— آصف شفیع —