بد گماں تو نا ہو اے ہمنوا
فاصلوں کا اہتمام تو نہ کر
کچھ احساس میرے نام کر
میری باتوں کو نہ سمجھ حرف آخر
میں مجبور سہی ، لاچار ہوں آخر
فیصلے تو خود سے نہ کر
تو آ کے میری جگہ خود کو چن
مانتا ہوں ، جانتا ہوں
بھیڑ میں کیا تھا تنہا
ہجر کی شب بخشی تھی تمہیں
کبھی اپنا ، کبھی غیر، کیا کیا کہا تھا
ہاں تم کو حق ہا
تم جیسے کہو میں مانتا ہوں
نم آنکھوں سے دیکھتا ہوں
چاہے مجھے غیر بلاؤ
چاہے کوئی تعلق بوجھ سمجھو
چاہے مجھے بھول جاؤ
ہاں تم کو حق ہہ
پر اتنا ہے فهد
میں تم سے بچھڑ کر بہت رویا
کئی پہر خود کو سنبھالا
سانسون کو قید کیا
یادوں کو یاد بہت کیا
میں تم سے بچھڑ کر بہت رویا
ایک سوال ہے
کیا اِس قدر نازک تھے رشتے
ایک پل میں تم خفا ہو گئے
وہ مجھ کو سمجھنے کا دعوی
کیا میں غلط تھا جو تم کو سمجھتا تھا الگ
تم بھی نکلے فقط لفظوں کے ماہر
میرے اندر کو نہ جان پائی
تم بھی نہ مجھے جان پائی
حیرت ہے
جسے اپنا مانا
وہی انجان نکلا
Subscribe
0 Comments