ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے

ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
تیری یادوں کی بارش برستی ہے مجھ پر جب بھی
میں بھیگ ضرور جاتی ہوں مگر پلکوں کی حد تک
اک عمر کٹ گئی لیکن بچپنا نہیں جاتا
ہم دیے جلاتے ہیں آج بھی تیری آہٹ پر
مصروفیت میں آتی ہے بے حد تمہاری یاد
فرصت میں تیری یاد سے فرصت نہیں ملتی
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
دیمک زدہ کتاب تھی یادوں کی زندگی
ہر ورق کھولنے کی خواہش میں پھٹ گیا