ہونٹوں کو روز اک نئے دریا کی آرزو

ہونٹوں کو روز اک نئے دریا کی آرزو
لے جائے گی یہ پیاس کی آوارگی کہاں
ہونٹوں کو روز اک نئے دریا کی آرزو
لے جائے گی یہ پیاس کی آوارگی کہاں
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ہم تجھ سے بڑے ہیں
لیکن یہ بہت ہے کہ ترے ساتھ کھڑے ہیں
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا
مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا
تجھے پانے کی کوشش میں کچھ اتنا کھو چکا ہوں میں
کہ تو مل بھی اگر جائے تو اب ملنے کا غم ہوگا
تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا
اک تو ہے جو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتا