کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
میں جب بھی چاہوں اسے چھو كے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا
لو میں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں اب تم رخصت ہو
دِل تو جانے کیا کہتا ہے لیکن دِل کا کہنا کیا
قدم رک سے گئے ہیں آج پھول بکتے دیکھ کر
وہ اکثر مجھ سے کہتا تھا محبت پھول جیسی ہے