جس کو طوفان سے الجھنے کی عادت ہو محسن

جس کو طوفان سے الجھنے کی عادت ہو محسن
ایسی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتا ہے
جس کو طوفان سے الجھنے کی عادت ہو محسن
ایسی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتا ہے
آتا ہے کون کون میرے غم کو بانٹنے
محسن تو میری موت کی افواہ اڑا کے دیکھ
ہَم سے بے وفائی کی انتہا کیا پوچھتے ہو محسن
وہ ہَم سے پیار سیکھتا رہا کسی اور كے لیے
کون کہتا ہے نفرتوں میں درد ہے محسن
کچھ محبتیں بھی بڑی اذیت ناک ہوتی ہیں
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں كے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا
اب کے بارش میں تو یہ کارِ زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا