مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو
مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو
میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی
مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی
نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا
بزعم ہوش تجلی کی جستجو بے سود
جنوں کی زد پہ خرد آ گئی تو کیا ہوگا