خوب پردہ ہے چِلْمَن سے لگے بیٹھے ہیں

خوب پردہ ہے چِلْمَن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چپھتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے چِلْمَن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چپھتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
بات میری کبھی سنی ہی نہیں
جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں
دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں
کیا ذوق ہے کیا شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں
پِھر بھی یہ کہوں جلوہ جاناں نہیں دیکھا
کیا پوچھتے ہو کون ہے یہ ؟ کس کی ہے شہرت
کیا تم نے کبھی داغ کا دیوان نہیں دیکھا
گلے شکوے کہاں تک ہوں گے ، آدھی رات تو گزری
پریشان تم بھی ہوتے ہو ، پریشان ہَم بھی ہوتے ہیں
کسی کا وعدہ دیدار تو اے داغ برحق ہے
مگر یہ دیکھیے دِل شاد اس دن ہم بھی ہوتے ہیں
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا