ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
زندگی انساں کی اک دَم کے سوا کچھ بھی نہیں
دَم ہوا کی موج ہے، رم کے سوا کچھ بھی نہیں
گُل تبسّم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر
شمع بولی، گِریۂ غم کے سوا کچھ بھی نہیں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی ، تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دِل تو ہے صنم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں
پتہ نہیں کیا ہے نام اس کا ، خدا فریبی كے خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا كے تقدیر بہانا
مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے
عینِ ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے
ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گِرداب مجھے
نظر نظر کا فرق ہوتا ہے حسن کا نہیں اقبال
محبوب جس کا بھی ہو جیسا بھی ہو بے مثال ہوتا ہے