وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے

وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصل گل پہ روئے تھے
ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے
وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصل گل پہ روئے تھے
ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے
جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
ذرے ذرے میں تیرا عکس نظر آتا ہے
رستہ دیکھتے رہنا بھی اب آساں نہ رہا
راتیں روتی ہیں کے وہ چاند نہ ابھرا اب تک
دن بلکتے ہیں کے وہ مہر درخشاں نہ رہا
مزید پڑھیں […]
اسے میں نے دیکھا
تو سوچا ، کہہ اب چاند نے
اپنے سورج سے
لو مانگنا چھوڑ دی ہے
ندیم میں کبھی اظہار مدعا نہ کروں گا
مگر وہ بہر خدا یہ غزل تو سنتے جائیں
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو