گزرے سال نے

گزرے سال نے
بہت کچھ دیا
بہت کچھ چھین لیا
مگر
تیری امید
باقی تھی
باقی ہے
جس دنیا سے تم ڈرتی تھی، اُسے بتلائے بیٹھا ہوں
جو بھی تھا قصہِ محبت، سب سُنائے بیٹھا ہوں
پکڑے ہاتھ میں جام، گم ہوں اپنی ہستی میں
اور اِنھیں لے کر نامِ خدا، خدا سے ڈرائے بیٹھا ہوں
پوچھ رہے ہٰیں ،یہ کیا کیسے، یہ ہوا کیسے
کھیل کر اِنکی کم عقلی سے جادو دیکھائے بیٹھا ہوں
رت جگے تو فرض ہیں، اُن پر جنھیں عشق ہو
کمال یہ کہ تیری بھی نیندیں اُڑائے بیٹھا ہوں
میرا ربط تھا خوش حالوں سے، اور ضبط کی تھی بات کیا
اب یہ حال ہے کہ مجنوں سا خبط اپنائے بیٹھا ہوں
میرا دیس ایک ایسے بستی ہے
جہاں مذہب کے نام پہ سر کٹتے ہیں
جہاں مذہب کی خاطر
نام کے مسلم لڑ مرتے ہیں
جہاں ملا، مفتی، قاری، سب ہی
دین کے ٹھیکیدار بنے ہیں
یہاں دین کے ٹھیکیدار بہیت ہیں
اسی لیے
یہاں فرقے بے شمار بہت ہیں
تمہارا دبدبہ لوگوں یہاں صرف زندگی تک ہے
کسی کی قبر کے اندر زمینداری نہیں چلتی
یہ بھی ممکن نہیں کہ اس نے ڈھونڈا نہیں ہو گا مجھے
بات یہ بھی سچ تھی کہ وہ چیزیں رکھ کر بھول جاتی تھی