تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون

تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون
ہم سجا بھی لیں اگر دیوار و در دیکھے گا کون
تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون
ہم سجا بھی لیں اگر دیوار و در دیکھے گا کون
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
ماضی تو سنہرا ہے مگر حال کھو گیا
وہ رعب و دبدبہ وہ جلال کھو گیا
وہ حسن بے مثال وہ جمال کھو گیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
نظر جو مجھ سے ملا کر گیا ہے
میرے ہوش وہ اڑا کر گیا ہے
اس كے سوا کچھ یاد نہیں
ہر نقش ذہن سے مٹا کر گیا ہے