بچھڑے یوں کے ریت پہ گم سُم بیٹھے بیٹھے

بچھڑے یوں کے ریت پہ گم سُم بیٹھے بیٹھے
اُس نے میرا میں نے اُس کا جرم لکھا
بچھڑے یوں کے ریت پہ گم سُم بیٹھے بیٹھے
اُس نے میرا میں نے اُس کا جرم لکھا
کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو
چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے
بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ