ایک شخص دیکھا ہے میں نے آئینے میں

ایک شخص دیکھا ہے میں نے آئینے میں
خفا دنیا سے ہے کلام خود سے بھی نہیں کرتا
ایک شخص دیکھا ہے میں نے آئینے میں
خفا دنیا سے ہے کلام خود سے بھی نہیں کرتا
بچھڑے یوں کے ریت پہ گم سُم بیٹھے بیٹھے
اُس نے میرا میں نے اُس کا جرم لکھا
کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو
چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے
بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا