اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت

اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
آئینہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا
نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا
رواج تو یہی ہے دنیا کا مل جانا بچھڑ جانا
تم سے یہ کیسا رشتہ ہے نہ ملتے ہو نہ بچھڑتے ہو
ہمارے بعد نہیں آئے گا اسے چاہت کا ایسا مزہ
وہ اوروں سے خود کہتا پھرے گا مجھے چاہو اس کی طرح
اسے تراشا کے ہیرا بنا دیا ہم نے فراز
مگر اب یہ سوچتے ہیں اسے خریدیں کیسے