کب بھلائے جاتے ہے دوست جدا ہو کر بھی وصی

کب بھلائے جاتے ہے دوست جدا ہو کر بھی وصی
دِل ٹوٹ تو جاتا ہے رہتا پِھر بھی سینے میں ہے
کب بھلائے جاتے ہے دوست جدا ہو کر بھی وصی
دِل ٹوٹ تو جاتا ہے رہتا پِھر بھی سینے میں ہے
مجھے غرور رہتا ہے تیری آشنائی کا
مگر ساتھ غم بھی ہے تیری جدائی کا
بھیڑ میں اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے
تیرے بن یہ حال ہے میری تنہائی کا
پاس راہ کر جدائی کی تجھ سے
دور ہو کر تجھے تلاش کیا
میں نے تیرا نشان گم کر كے
اپنے اندر تجھے تلاش کیا
تھی وصل میں بھی فکر جدائی تمام شب
وہ آئے تو بھی نیند نہ آئی تمام شب
اگر کبھی نیند آ جائے تو سو بھی لیا کر ساغر
راتوں کو جاگتے رہنے سے بچھڑے لوٹا نہیں کرتے
پِھر یوں ہوا كے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا
ثابت ہوا كے لازم و ملزوم کچھ نہیں
اس نے یہ سوچ کر ہمیں الوداع کہہ دیا محسن
یہ غریب لوگ ہیں محبت كے سوا کیا دیں گے
بے وجہ نہیں روتا عشق میں کوئی غالب
جسے خود سے بڑھ كے چاہا ہو وہ رلاتا ضرور ہے