جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی

جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا
دِل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈَر بھی نہیں جاتا
کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چور تھا
جان بوجھ کر سمجھ کر میں نے بھلا دیا
ہر وہ قصہ جو دل کو بہلانے والا تھا
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
مت پوچھ یہ کہ رات کٹی کیونکے تجھ بغیر
اس گفتگو سے فائدہ پیارے گزر گئی
شب فرقت میں ملن کے ترانے گا رہا ہوں میں
ملن کو بیتاب نا ہو،دل کو سمجھا رہا ہوں میں
بے حس ہیں یہاں لوگ بھلا سوچ كے کرنا
اِس دور میں لوگوں سے وفا سوچ كے کرنا
گل شاخ سے بچھڑے تو کہیں کا نہیں رہتا
تم ذات میری خود سے جدا سوچ كے کرنا