بس ختم کر یہ بازی عشق غالب

بس ختم کر یہ بازی عشق غالب
مقدر كے ہارے کبھی جیتا نہیں کرتے
محبت کرنے والوں سے مانگے تو سروں کی بلی
ارے عشق کچھ خیال کر یہ تو رسم ہے کافرانہ
تیری باتوں میں ذکر اس کا میری باتوں میں ذکر تیرا
عجب عشق ہے محسن نہ تو میرا نہ وہ تیرا
عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
حسن خود محو تماشا ہوگا
سن کے آوازۂ زنجیر صبا
قفس غنچہ کا در وا ہوگا
بسا لینا کسی کو دِل میں ، دِل ہی کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا
اور بھی چیزیں بہت سی لٹ چکی ہیں دِل كے ساتھ
یہ بتایا دوستو نے عشق فرمانے كے بعد
اِس لیے کمرے کی اک اک چیز چیک کرتا ہوں
اک تیرے آنے سے پہلے اک تیرے جانے كے بعد
ساری عمر کر كے برباد عشق کی عزت چکھ لی
اس نے بھی برقع پہن لیا ہم نے بھی داڑھی رکھ لی
عشق کا اپنا غرور حسن کی اپنی انا
ان سے آیا نہ گیا ہم سے بھلایا نہ گیا