آنکھوں میں ملال ہے اے دوست

آنکھوں میں ملال ہے اے دوست
مجھ کو تیرا خیال ہے اے دوست
زندگی بے وفا ہی سہی
پیار تو لازوال ہے اے دوست
ہجرتوں کے عذاب موسم میں
تم سے ملنا محال ہے اے دوست
رات دن تجھ ہی کو میں سوچتا ہوں
اب تو یہ حال ہے اے دوست
مال و دولت کے حصول کی خاطر
ہر سو قتل و قتال ہے اے دوست
لاکھ برا تجھ کو کہے یہ دنیا
مگر تو بے مثال ہے اے دوست

ہم تو دوستی کے لیے تیار تھے

ہم تو دوستی کے لیے تیار تھے
مگر وہ بدنصیب ہمیں اپنا دوست بنا نہ پایا

ہم سے دوستی اتنی مشکل نہ تھی
مگر وہ غافل ہمارے اصول اپنا نہ پایا

اسے تو ہماری قدر آ ہی گئی
مگر وہ ہمیں پِھر ڈھونڈ نہ پایا