کب بھلائے جاتے ہے دوست جدا ہو کر بھی وصی

کب بھلائے جاتے ہے دوست جدا ہو کر بھی وصی
دِل ٹوٹ تو جاتا ہے رہتا پِھر بھی سینے میں ہے
کب بھلائے جاتے ہے دوست جدا ہو کر بھی وصی
دِل ٹوٹ تو جاتا ہے رہتا پِھر بھی سینے میں ہے
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی
مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی
آنکھوں میں ملال ہے اے دوست
مجھ کو تیرا خیال ہے اے دوست
زندگی بے وفا ہی سہی
پیار تو لازوال ہے اے دوست
ہجرتوں کے عذاب موسم میں
تم سے ملنا محال ہے اے دوست
رات دن تجھ ہی کو میں سوچتا ہوں
اب تو یہ حال ہے اے دوست
مال و دولت کے حصول کی خاطر
ہر سو قتل و قتال ہے اے دوست
لاکھ برا تجھ کو کہے یہ دنیا
مگر تو بے مثال ہے اے دوست
یہ دن یونہی گزر جائیں گے
شاید ہم دوست یونہی بچھڑ جائیں گے
ناراض مت ہونا ہماری شرارتوں سے
یہی وہ پل ہے جو اکثر یاد آئیں گے
تمام تذکروں میں عظیم تذکرہ ہے دوست کا
مانو تو سب سے اعلی اور نرالا سفر ہے دوست کا
دوستی میں ہرشخصی پہلو کا ذکر کر لیتے ہے لوگ
اعتمادی اتنا ہے کی دِل سے قدر کرتے ہیں دوست کا
ہم تو دوستی کے لیے تیار تھے
مگر وہ بدنصیب ہمیں اپنا دوست بنا نہ پایا
ہم سے دوستی اتنی مشکل نہ تھی
مگر وہ غافل ہمارے اصول اپنا نہ پایا
اسے تو ہماری قدر آ ہی گئی
مگر وہ ہمیں پِھر ڈھونڈ نہ پایا