ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر

ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا
نفی تم ہو نہیں سکتے ، جمع سے تم کو نفرت ہے
تقسیم تم کو کرتے ہیں تو ضرب دِل پر لگتی ہے
سب کچھ جانتے ہوئے بھی دِل مانتا نہیں تھا
ہَم جانے اعتبار كے کس مرحلے میں تھے
تو کچھ بھی ہو کب تک تجھے ہم یاد کریں گے
تا حشر تو یہ دل بھی دھڑکتا نہ رہے گا
خواہش کے اظہار سے ڈرنا سیکھ لیا ہے
دل نے کیوں سمجھوتہ کرنا سیکھ لیا ہے
جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی
دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی