ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
بے وجہ نہیں روتا عشق میں کوئی غالب
جسے خود سے بڑھ كے چاہا ہو وہ رلاتا ضرور ہے
آج کی رات بھی ممکن ہے نہ سو سکوں محسن
یاد پِھر آئی ہے نیندوں کو اڑانے والی
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اپنوں کی چاہتوں میں ملاوٹ تھی اِس قدر
تنگ آ كے دشمنوں کو منانے چلا گیا