رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی

رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی
کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا
رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی
کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے گا
بچوں کی طرح چاہے مجھے ڈانٹ لے کوئی
لیکن شرط ہے میرے غم بانٹ لے کوئی
شب کے سناٹے میں یہ کس کا لہو گاتا ہے
سرحد درد سے یہ کس کی صدا آتی ہے
میں ابھی طفلِ مکتب ہوں مجھ کو سمجھایا جائے
دِل مر سا گیا ہے ، دفنایا جائے كہ جلایا جائے
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں كے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں
سبھی رشتے گلابوں کی طرح خوشبو نہیں دیتے
کچھ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو کانٹے چھوڑ جاتے ہیں