دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب

دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں
میں اپنے آپ کو سلگا رہا ہوں اس توقع پر
کبھی تو آگ بھڑکے گی کبھی تو روشنی ہو گی
وہ تو ایسا تھا كے اک آنسو گرنے کی بھی وجہ پوچھا کرتا تھا
پر نہ جانے کیوں اب اسے برسات کی پہچان نہیں ہوتی
ہَم سے بے وفائی کی انتہا کیا پوچھتے ہو محسن
وہ ہَم سے پیار سیکھتا رہا کسی اور كے لیے
کون کہتا ہے نفرتوں میں درد ہے محسن
کچھ محبتیں بھی بڑی اذیت ناک ہوتی ہیں
سوکھے پتوں کی طرح بکھرے ہیں ہَم تو
کسی نے سمیٹا بھی تو صرف جلانے كے لیے