کبھی سحر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے
کبھی سحر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے
تمہارا درد کئی کام لے گیا مجھ سے
کبھی سحر تو کبھی شام لے گیا مجھ سے
تمہارا درد کئی کام لے گیا مجھ سے
یقین نہ آئے تو اک بار پوچھ کر دیکھو
جو ہنس رہا ہے ، وہ زخموں سے چور نکلے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
میرے ہم سخن کا یہ حکم تھا كے كلام اس سے میں کم کروں
میرے ہونٹ ایسے سلے كے پِھر میری چُپ نے اس کو رلا دیا
درد کی دِل پہ حکومت تھی کہاں تھا اس وقت
جب مجھے تیری ضرورت تھی کہاں تھا اس وقت
موت كے سکھ میں چلا آیا مجھے دیکھنے کو
زندہ رہنے کی مصیبت تھی کہاں تھا اس وقت
دِل كے دریائوں میں اب ریت ہے سحراؤں کی
جب مجھے تم سے محبت تھی کہاں تھا اس وقت
تیری طرح تیرا غم بھی ہمیں مات دے گیا
آنکھیں تو ڈھانپ لیں مگر آنسو نہ چُھپ سکے
لگا كے آگ سینے میں چلے ہو تم کہاں
ابھی تو راکھ اڑنے دو تماشا اور بھی ہو گا