رقص شعلوں کا اگر تمھیں اتنا ہی پسند ہے
رقص شعلوں کا اگر تمھیں اتنا ہی پسند ہے
تو کسی دن اپنے گھر کو آگ لگا کر دیکھو
رقص شعلوں کا اگر تمھیں اتنا ہی پسند ہے
تو کسی دن اپنے گھر کو آگ لگا کر دیکھو
ہمارے شہر آ جاؤ سدا برسات رہتی ہے
کبھی بادل برستے ہیں کبھی آنکھیں برستی ہیں
کاش کے کوئی ہمارا وفا دار یار ہوتا
سینہ تان کے چلتے بے وفاؤں کی گلیوں میں
اپنی طبیعت کا مزاج بھی بہت عجیب ہے
لوگ موت سے ڈرتے ہے اور ہَم تیری جدائی سے
میں تم سے بڑھ کر کسی اور کو کیوں چاہوں
تمہی پر ختم ہے سلسلہ میری محبت کا
دِل مرحوم یاد آتا ہے
کیسی رونق لگائے رکھتا تھا
رہتا ہوں اب قفس میں آزادیاں نہیں
ہیں ساتھ تیری یادیں تنہایاں نہیں