میں مدتوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر

میں مدتوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر
اب تم بھی ساتھ چھوڑنے کو کہہ رہے ہو خیر
میں مدتوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر
اب تم بھی ساتھ چھوڑنے کو کہہ رہے ہو خیر
کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے
کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا
ہزار درد كے رنگوں سے آشْنا تھی نظر
پِھر اک خواب سیاہ کھا گیا میری آنکھیں
بدلا ہوا ہے آج مرے آنسوؤں کا رنگ
کیا دل کے زخم کا کوئی ٹانکا ادھڑ گیا
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
بڑا شوق تھا انہیں میرا آشانہ دیکھنے کا
جب دیکھی میری غریبی تو رستہ بَدَل لیا
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا