دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن

دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا
دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا
لہریں مار جاتی ہے ٹھوکر آ کر تجھے اے ساحل
کبھی تو بھی کنارے سے کنارہ کر لے
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا
اب انسان کے بس میں نہیں کے میرا جی بہلائے
اب تو کوئی فرشتہ ہی آئے کہ مجھے چین کی نیند سلائے
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو